پیار ہے بھید کا گہرا ساگر، اس کی تھاہ نہ پاؤ گے
جس دم پانی سر سے گزرا آپ کہیں کھو جاؤ گے
دھوپ بُری ہے او ر نہ چھاؤں، سمے سمے کی ساری بات
رَنگوں کے اس کھیل سے کب تک اپنی جان چُراؤ گے
جیتی جاگتی تصویریں ہیں دنیا بھر کی آنکھوں میں
اپنا آپ جہاں بھی دیکھا، سِمٹو گے شرماؤ گے
اتنا ہی بوجھل خاک کا بندھن، جتنی سُندر دھیان کی ڈور
پاؤں زمیں سے لگے رہیں گے، اونچا اڑتے جاؤ گے
بچھڑے لمحے راہ نہ بھولیں رات کے سُونے آنگن کی
خود ہی کریدو گے زخموں کو، خود ہی انھیں سہلاؤ گے
پاگل پن میں مَن کا موتی سستے داموں بیچ دیا
اب کنکر پتھر چُن چُن کر اپنا جی بہلاؤ گے
اس کے چَرَن کی خاک ہی چُھو لو، ہوش نہ ہو گا اتنا بھی
آنکھوں سے حسرت ٹپکے گی، دور کھڑے للچاؤ گے
شانت نگر کا کھوج لگا کر یہ دُکھ بھی سہنا ہو گا
جانے پہچانے لوگوں میں پردیسی کہلاؤ گے
شکیب جلالی