موسمِ گُل ہے، بھری برسات ہے
جام چھلکاؤ اندھیری رات ہے
رنج و غم میں زندگی پاتا ہوں میں
لطف اُن کا موجبِ صَدمات ہے
اُٹھتے جاتے ہیں نگاہوں سے حجاب
جرأتوں پر عالمِ جذبات ہے
کون سی منزل پہ لے آیا جنوں
اب مجسّم حُسن، میری ذات ہے
گِردِ رُخ زُلفیں ہیں اُن کی یا، شکیبؔ
صبح کو گھیرے اندھیری رات ہے
شکیب جلالی