جاری رہے گلشن میں بیاں موسمِ گُل کا

باقی ہے یہی ایک نشاں موسمِ گُل کا
جاری رہے گلشن میں بیاں موسمِ گُل کا
جب پُھول مرے چاکِ گریباں پہ ہنسے تھے
لمحہ وہی گزرا ہے گراں موسمِ گُل کا
نادان گھٹاؤں کے طلب گار ہوئے ہیں
شعلوں کو بنا کر نگراں موسمِ گُل کا
سُوکھے ہوئے پتّوں کے جہاں ڈھیر ملے ہیں
دیکھا تھا وہیں سیلِ رواں موسمِ گُل کا
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s