تیرگی کے دَشت میں روشنی کی جھیل ہے

شہرِ دِل کے گرد و پیش، رات کی فصیل ہے
تیرگی کے دَشت میں روشنی کی جھیل ہے
کٹ چکی ہے راہِ شب، ہم نہ رُک سکیں گے اب
نغمہِ سَحر ہمیں نالہِ رحیل ہے
زندگی سے بھاگ کر جائے بھی کہاں بشر
خود ہی منزلِ مراد، خود ہی سنگِ میل ہے
ساحلِ نشاط کے بُجھ چکے ہیں سب دیے
دردِ دل کی ایک لہر، ہم کو رودِ نیل ہے
گمرہی ہمیں ، شکیبؔ! دے رہی یہ فریب
رہ نما غلط نہیں، راستہ طویل ہے
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s