غمِ دل سنانے کو جی چاہتا ہے
تمھیں بھی رُلانے کو جی چاہتا ہے
یہ میں کس کا نقشِ قدم دیکھتا ہوں
یہ کیوں سر جُھکانے کو جی چاہتا ہے
سُلوکِ زمانہ سے تنگ آگیا ہوں
بیاباں بسانے کو جی چاہتا ہے
غمِ زندگانی سے اُکتا گیا ہوں
مگر غم اٹھانے کو جی چاہتا ہے
کسی فتنہ خُو کی تمنّا تو دیکھو
مجھے بھول جانے کو جی چاہتا ہے
جبیں ہی رہے یا ترا سنگِ در ہی
جنوں آزمانے کو جی چاہتا ہے
شکیبؔ، اس طرح کچھ قفس راس آیا
کہ گلشن جلانے کو جی چاہتا ہے
شکیب جلالی