ساغرِ چشم سے سرشار نظر آتے ہیں
بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں
کُلفتیں آج بھی قائم ہیں قَفَس کی شاید
گُلستاں حاملِ افکار نظر آتے ہیں
جن پہ بے لوث محبت بھی بجا ناز کرے
ایسے نایاب ہی کردار نظر آتے ہیں
خود ہی آتی ہے مسرّت انھیں مژدہ دینے
جو ہر اک غم کے سزاوار نظر آتے ہیں
بے سہارا جو گزر جاتے ہیں طوفانوں سے
کچھ یہاں ایسے بھی خوددار نظر آتے ہیں
جن مراحل کو سمجھنے سے خرد قاصر ہے
وہ جنوں کے لیے شہ کار نظر آتے ہیں
کسبِ ثروت ہی، شکیبؔ، آج کا فن ہے شاید
طالبِ زر مجھے فن کار نظر آتے ہیں
شکیب جلالی