کچھ مت پُوچھو وقت نے اب کے چلی ہے کیسی چال
بن گئے پربت روئی کے گالے، بھرگئے خون سے تال
کیسی بلندی، کیسی پستی، ایک ہے سب کا حال
سمجھے تھے آکاش جسے، نکلا وہ بھی پاتال
اب میں ہوں اور حدِّ نظر تک ویرانی کی دُھول
اُڑ گئی خوشبو، جَھڑگئے پتّے، رہ گئی خالی ڈال
قریہ قریہ مانگتے پھرنا شبنم کی اک بُوند
سورج کی پونجی ہی کیا ہے پیتل کا اک تھال
آنکھ سے آنسو ٹپکا، یا کوئی تارا ٹوٹا تھا
بستی بستی پھیل گیا کیوں آوازوں کا جال
اپنے ہی سایے کے پیچھے بھاگ رہا ہے کوئی
دشتِ وفا میں پڑ گیا شاید انسانوں کا کال
رات کی شہزادی پر جانے کیا اُفتاد پڑی
کانسی کا ہے طَوق گلے میں سر پر میلی شال
خوشبو کی لپٹیں دیتے ہیں دیکھو میرے ہاتھ
میں نے چھُو کر دیکھ لیے ہیں غم کے خدّو خال
سیپیاں چُنتے ساحل ساحل گھومیں لوگ، شکیبؔ
اشکوں کے موتی چُن کر ہم تو ہو گئے مالا مال
شکیب جلالی