پورب سے آئے ہیں بادل
گنگا جل لائے ہیں بادل
رنگ ہے ان کا کاہی کاہی
پھیلی ہے ہر سمت سیاہی
چلتے ہیں یہ ہلکے ہلکے
رنگ برنگے روپ بدل کے
نظریں جب بھی اٹھاتے ہیں ہم
اک نئی صورت پاتے ہیں ہم
شیر کبھی بن جاتے ہیں یہ
ہم کو خوب ڈراتے ہیں یہ
شکل کبھی ہوتی ہے ان کی
موٹے تازے گھوڑے جیسی
دھیرے دھیرے نقش بدل کر
ہاتھی بن جاتے ہیں اکثر
جب یہ آتے ہیں مستی میں
دوڑ لگاتے ہیں مستی میں
یہ اُس کو چھونے جاتا ہے
وہ اُس کے پیچھے آتا ہے
کھیل ہی کھیل میں لڑ جاتے ہیں
یہ آپس میں غرّاتے ہیں
ایک پہ اک چڑھ کر آتا ہے
برقی کوڑے لہراتا ہے
پھر یہ اپنی سُونڈ اٹھا کر
جھاگ اُڑاتے ہیں دنیا پر
جن کو ہم بارش کہتے ہیں
جو دریا بن کر بہتے ہیں
شکیب جلالی