اے سرزمینِ الجزائر

چپّے چپّے سے اُبلتے ہوئے خُوں کے چشمے

تیری مظلومیِ بے حد کا پتہ دیتے ہیں

کتنے جابر ہیں نئے دور کے سلطاں زادے

تیری معصوم اُمنگوں کو سزا دیتے ہیں

جب بھی جولانیاں کرتا ہے ترا عزمِ جمیل

تیرے گرد اک نئی دیوار اٹھا دیتے ہیں

آگ محرومی کی روشن ہے جو تیرے دل میں

اپنے دامن سے اسے اور ہوا دیتے ہیں

—–

اس سے پہلے بھی یوں ہی جھلسے گئے دیدہ و دل

جسم روندے گئے تپتے ہوئے صحراؤں میں

تشنگی کاسہ بدست آئی تو شبنم نہ ملی

زہر گھولا گیا بہتے ہوئے دریاؤں میں

گرمیِ شوق نے جب انجمن آرائی کی

فصد کھولی گئی تیروں کی گھنی چھاؤں میں

خوں چکاں لاشوں پہ تعمیر ہوئے راج محل

روز اوّل سے یہی رسم ہے آقاؤں میں

خسرو و جَم نے تشدّد کا سہارا ڈھونڈا

ورنہ انسان تھے وہ کیسے خدائی کرتے؟

—–

چِلچلاتی ہوئی دھوپوں میں بھٹکتے پھرتے

سایہِ زُلف میں کیوں نغمہ سرائی کرتے؟

ان کی لغزش بھی سرِ راہ اُچھالی جاتی

لوگ ہر گام پہ انگشت نمائی کرتے!

دانے دانے پہ تھی محنت کش و جمہور کی مُہر

اپنی نسلوں کے لیے خاک کمائی کرتے

—–

یہ ہے وہ موڑ مگر رَہ گزرِ ہستی کا

کہ بہکتے ہوئے قدموں کو سنبھلنا ہو گا

ملک گیری کا تصوّر ہے لہو میں غلطاں

مُسکراتی ہوئی اقدار پہ چلنا ہو گا

امنِ عالم خس و خاشاک کا خرمن ہی تو ہے

سر اٹھاتے ہوئے شعلے کو کُچلنا ہو گا

کوئی ذرّہ ہو کہ صحرا‘ کوئی پتّھر کہ پہاڑ

تودہِ برف کے مانند پگھلنا ہو گا

شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s