یہ جھاڑیاں ، یہ خار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
اے حُکمِ شہریار، کہاں آگیا ہُوں میَں
ہر عندلیب مرگِ تبسّم پہ نوحہ خواں
ہر پھول سوگوار، کہاں آگیا ہُوں میَں
کیا واقعی نہیں ہے یہ موسیقیوں کا شہر
کیوں چُپ ہیں نغمہ کار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
پُھولوں کی سرزمیں ہے نہ خوشبو کی رَہ گزر
اے حسرتِ بہار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
جا تو رہا تھا چشمہِ آبِ حیات پر
یہ دُھول، یہ غبار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
رَہ زَن مُجھی سے پوچھ رہے ہیں مرا پتا
اے حُسنِ اعتبار! کہاں آگیا ہُوں مَیں
شکیب جلالی