کوئی اِس دل کا حال کیا جانے
ایک خواہش، ہزار تہ خانے
آپ سمجھے نہ ہم ہی پہچانے
کتنے مبہم تھے دل کے افسانے
زِیست کے شور و شر میں ڈوب گئے
وقت کو ناپنے کے پیمانے
پھر ہُوا کوئی بدگماں ہم سے
پھر جنم لے رہے ہیں افسانے
شوخیِ برق ہے نہ رقصِ نسیم
سوگئے ہیں بہار کے شانے
کتنا مشکل ہے منزلوں کا حُصول
کتنے آساں ہیں جال پھیلانے
دُور سے ایک چیخ اُبھری تھی
بن گئے بے شُمار افسَانے
موت نے آج خود کُشی کرلی
زیست پر کیا بنی خُدا جانے
راز یہ ہے کہ کوئی راز نہیں
لوگ پھر بھی مجھے نہ پہچانے
وقت نے یہ کہا ہے رُک رُک کر
آج کے دوست کل کے بیگانے
شکیب جلالی