ایک ادنیٰ سی توجہ جو کسی کے دل میں ہے
اک چراغِ رہ گزر ہے جو مری منزل میں ہے
راستے کی کُلفتوں پر ہنس رہے ہیں آبلے
کون جانے لُطف کتنا دوریِ منزل میں ہے
ان کی تصویروں میں پاتا ہوں ابھی تک دل کشی
کچھ نہ کچھ احساس اپنا بھی کسی کے دل میں ہے
تلخیِ اَیّام سے گھبرا کے بُھولا تھا تمھیں
اب نہیں معلوم کیوں دل کا سکوں مشکل میں ہے
ہم کو جانے کیا سمجھ کر وہ بھلا بیٹھے، شکیبؔ
پھر بھی ان کی یاد جانے کیوں ہمارے دل میں ہے
شکیب جلالی