جس دم قفس میں موسمِ گُل کی خبر گئی
اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی
دھند لا گئے نقوش تو سایہ سا بن گیا
دیکھا کیا میں ان کو، جہاں تک نظر گئی
بہتر تھا، مَیں جو دُور سے پُھولوں کو دیکھتا
چھونے سے پتّی پتّی ہَوا میں بکھر گئی
کتنے ہی لوگ صاحبِ احساس ہو گئے
اک بے نوا کی چیخ بڑا کام کر گئی
تنہائیوں کے شہر میں کون آئے گا، شکیبؔ
سو جاؤ، اب تو رات بھی آدھی گزر گئی
شکیب جلالی