اُبھریں گے کیا کہ ڈُوبے ہیں سنگِ گراں کے ساتھ

زعمِ وفا بھی ہے ہمیں ، عشقِ بُتاں کے ساتھ
اُبھریں گے کیا کہ ڈُوبے ہیں سنگِ گراں کے ساتھ
تنہائیوں کے کیف سے نا آشنا نہیں
وابستگی ضرور ہے بزمِ جہاں کے ساتھ
اے چشم تر! سفینہِ دل کی تھی کیا بساط
ساحل نشیں بھی بہ گئے سیلِ رواں کے ساتھ
اُن ساعتوں کی یاد سے مہکا ہوا ہے دل
گزری تھیں جو کسی نگہِ گُل فشاں کے ساتھ
کہتی ہے جلتی دھوپ کہ منزل سے ذرا دور
جانا پڑے گا سایہِ ابرِ رواں کے ساتھ
تُہمت سُبک رَوی کی بجا ہے مگر، شکیبؔ
اک رَہ روِ علیل بھی ہے کارواں کے ساتھ
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s