آج سے آٹھ برس پہلے میں نے شکیب جلالی کو ناصر کاظمی‘ احمد فراز‘ ظفر اقبال اور شہزاد احمد کی موجودگی میں اردو غزل کی اُمید گاہ کہا تھا۔ ایک ہی برس بعد اس کا انتقال ہو گیا مگر میں آج بھی اسے اردو غزل کی اُمید گاہ قرار دیتا ہوں۔ ۱۹۶۰ ء سے ۱۹۶۶ ء تک اس نے جتنی غزلیں لکھی ہیں وہ میرے اس دعوے کی بھر پور تائید کرتی ہیں۔ ان میں اتنے رنگ ہیں ‘ اتنے پہلو ہیں ‘ اتنے تیور ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتاکہ میں اس کے کون سے رنگ کے بارے میں لکھوں اور اس کے کس تیور کو نظر انداز کروں۔ ابھی چند روز پہلے کی بات ہے ‘ میں ایک کام سے اپنے گاؤں گیا اور ساتھ ہی شکیبؔ کا مجموعہ کلام ’’روشنی اے روشنی‘ ‘ لیتا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ اس کی کسی ایک نمایاں خصوصیت کو اپنے مضمون کا موضوع بناؤں اور اس خصوصیت کے حوالے سے اشعار چن لوں۔ مگر جب میں مجموعے کی ابتدائی پچیس تیس غزلیں پڑھ چکا تو میں نے محسوس کیاکہ میں نے ان تمام غزلوں کے اشعار پر نشان لگا دیے ہیں اور کوئی ایک شعر بھی ایسا نہیں ہے جسے شکیبؔ کے کمالِ فن کے تذکرے پر نظر انداز کیا جاسکے۔ برسوں پہلے خواجہ میر درد کے دیوان کا انتخاب کرتے ہوئے بھی مجھے ایسا ہی تجربہ ہوا تھا۔ اس وقت بھی یہی خطرہ درپیش تھا کہ میں سارا دیوان ہی منتخب کر لوں گا مگر بعض مقامات پر اس زمانے کی زبان کی غرابت نے میری مدد کی اور میں اکّا دکّا اشعار کو چھوڑتا چلا گیا۔ شکیبؔ کے کلام نے تومجھے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔ ہمارے ہاں کے ادبی تنقید نگار خود اپنے ذہن سے ذرا کم ہی سوچنے کے عادی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اساتذہِ فن کے چکر ہی سے نہیں نکل پاتے اور نئے شعرا کو درخورِاعتنا سمجھنا ان کی کسر شان ہے مگر آج نہیں تو مستقبل کا نقاد اس حقیقت کو پوری طرح تسلیم کرے گا کہ جدید اردو غزل کو جس شاعر نے سب سے زیادہ بصیرت دی اور جس نے ۲۵ برس کی عمر ہی میں اپنا منفرد اُسلوبِ شعرپیدا کر لیا تھا اور جس نے نہایت خاموشی کے ساتھ آنے والی پوری نسل کو بے پناہ حد تک متاثر کیا وہ شکیب جلالی ہی تھا۔ مانا کہ ان میں سے اکثرمیں شکیبؔ کی سی ہمہ گیری اور ہمہ رنگی نہیں آئی۔ مگر اب شکیبؔ کے کلام کی یک جائی کے بعد وہ محسوس کریں گے کہ جدید غزل میں جدت کم اور جذبے کی تہذیب بھی شامل ہونی چاہیے اور شکیبؔ کی غزل کی طرح اسے جدید غزل ہونے کے باوجود مرزا غالب اور اقبال اور فراق کی روایت کی غزل بھی ہونا چاہیے۔
اب آخر میں شکیبؔ کے چند اشعار سن لیجیے
خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جُھک کے کھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں ؟
……………
سوچو تو سِلوٹوں سے بھری ہے تمام رُوح
دیکھو تو اِک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
……………
ملبوس خوشنما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر
……………
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
……………
رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں
اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو
میں نے اسے شریکِ سفر کر لیا‘ شکیبؔ
اپنی طرح سے چاند جو بے گھر لگا مجھے
نہ اتنی تیز چلے‘ سر پِھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتہ دکھائی دیتا ہے
……………
درخت راہ بتائیں ہلا ہلا کر ہاتھ
کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے کوئی
……………
عالم میں جس کی دھوم تھی‘ اس شاہ کار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
……………
اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہُوا
زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی
……………
یہ کائنات ہے میری ہی خاک کا ذرّہ
میں اپنے دشت سے گزرا تو بھید پائے بہت
……………
یوں بے سبب تو کوئی انھیں پوجتا نہیں
کچھ تو ہے پتھروں میں خدوخال کی طرح
……………
کسی کا جسم اگر چھو لیا خیال میں بھی
تو پور پور‘ مری مثلِ شمع جلنے لگی
……………
یہ آڑی ترچھی لکیریں بنا گیا ہے کون
میں کیا کہوں ‘ مرے دل کا ورق تو سادہ تھا
اے دوست‘ پہلے قرب کا نشّہ عجیب تھا
میں سُن سکا نہ اپنے بدن کی پُکار بھی
……………
اک یاد ہے جو دامنِ دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے جو لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
……………
کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی
وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکّھا کتاب میں
……………
شکیبؔ کیسی اڑان‘ اب وہ پَر ہی ٹوٹ گئے
کہ زیرِ دام جب آئے تھے‘ پھڑ پھڑائے بہت
……………
اِک حشر سا بپا تھا مرے دل میں اے شکیبؔ
کھولیں جو کھڑکیاں تو ذرا شور گھٹ گیا
……………
اسی لیے تو ہوا روپڑی درختوں میں
ابھی میں کھِل نہ سکا تھا کہُرت بدلنے لگی
……………
تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ‘ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
……………
اک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیبؔ
دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے
تیشے کا کام ریشہِ گُل سے لیا شکیبؔ
ہم سے پہاڑ کاٹنے والے ہوئے نہیں
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)