شکیب جلالی کی شاعری کا سوانحی استعارہ ان کا یہ شعر ہے:
فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
اس استعارے میں موت کو علامت کے طور پر برتا گیا ہے۔ لیکن موت کسی سفر کے خاتمے کا نہیں بلکہ وقت کے حدود سے آگے نکل جانے کا نام ہے۔ اس میں کئی نئے تناظر پیدا ہوتے ہیں۔ فصیلِ جسم ‘ تازہ لہو‘ چھینٹے‘ وقت‘ سفرِ مدام‘ وغیرہ علامتیں شاعر کی فکری وسعت کی مختلف جہتوں کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اسی طرح چند شعر اور دیکھئے:
دیکھ کر اپنے درو بام لرز جاتا ہوں
میرے ہم سایے میں جب بھی کوئی دیوار گرے
جھکی چٹان‘ پھسلتی گرفت‘ جھولتا جسم
میں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میں
آ کر گرا کوئی پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
سایہ کیوں جل کے ہوا خاک‘ تجھے کیا معلوم
تو کبھی آگ کے دریاؤں میں اترا ہی نہیں
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت
شکیب جلالی کی شاعری کا اہم پہلو ان کا احساسِ ناآسودگی ہے۔ نا آسودگی کا احساس تجربے کی نوعیت کے اعتبار سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ منفی رجحان کی عکاسی بھی کر سکتا ہے جس میں شاعری قنوطیت کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ رونے رلانے اور نوحہ گری ذاتی احساس کا روپ دھارن کر لیتی ہے لیکن اگر یہی ناآسودگی تحرک و نامیاتی اقدار سے ہم آہنگ ہو جائے تو شاعری پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹنے کا کام کرتی ہے۔ نا آسودگی بہتر سے بہتر کی تلاش کی جانب مائل کرتی ہے۔ شاعری زندگی کو بہتر بنانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ شکیب جلالی کی شاعری نا آسودگی میں تھک کر بیٹھ جانے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ان کی نا آسودگی نئے افق کی تلاش کا استعارہ ہے۔ نا آسودگی سے مایوسی نہیں پیدا ہوتی‘ بلکہ اس سے فکر و عمل کے جذبات بیدار ہوتے ہیں۔ چند اشعار دیکھیے:
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
ٹھوکر سے میرا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور
رستے میں جو کھڑا تھا وہ کہسار ہٹ گیا
میں گھٹا ہوں ‘ نہ پون ہوں ‘ نہ چراغ
ہم نشیں میرا کوئی کیا ہوتا
نا آسودگی کو آسودگی کا استعارہ بنانے میں واقعہ کربلا کا بطور شعری استعارہ استعمال نئی معنویت پیدا کر دیتا ہے۔ شکیب جلالی نے اس طرح کے استعارے زیادہ استعمال نہیں کیے ہیں۔ لیکن جہاں بھی استعمال کیا ہے ‘ تخلیقی و فنی معنویت پیدا کی ہے۔ یہ اشعار دیکھیے:
ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا
تمہیں بھی علم ہو اہلِ جفا پہ کیا گزری
تم اپنے خونِ جگر سے کبھی وضو تو کرو
شکیب جلالی کی نظمیں ان کی غزلیوں سے ہم آہنگ ہیں۔ ان کی نظم’جشن عید‘ اور ’عید کی بھیک‘ سماجی نا برابری کے دومختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتی ہے۔ ’نئی کرن‘ اور بنام اہل چمن‘ میں سماجی زندگی کی نعمتوں کو عام کردینے کا پیغام ہے۔
’لہو ترنگ‘ جو ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے شہیدوں کی یاد میں ہے‘ ظلم و جبر کے
خلاف علامتی نظم ہے جس میں دو آوازیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں اور اپنا آفاقی پیغام پیش کرتی ہیں۔
جواں رہیں گی ہمارے لہو کی تحریریں
سدا بہار شگوفے کھلائے جا تے ہیں
شکیب جلالی کا کلام عصری حسیت سے بھر پور ہے۔ ان کے لہجے میں کلاسیکیت ہے اور جدیدیت بھی۔ فنی بالیدگی بھی ہے اور انسان دوستی بھی۔ شکیب جلالی کی طرح کے شاعر اپنے کلام کی تہ داری اور معنویت کے اعتبار سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔