اُن کی سنجیدہ ملاقات سے دُکھ پہنچا ہے
اجنبی طرز کے حالات سے دُکھ پہنچا ہے
اُس کا مذکور کہیں شکوہِ محسن میں نہیں
میری خوددار روایات سے دُکھ پہنچا ہے
دیکھ زخمی ہوا جاتا ہے دو عالم کا خلوص
ایک انساں کو تری ذات سے دُکھ پہنچا ہے
احتراماً مرے ہونٹوں پہ مُسلّط تھا سُکوت
اُن کے بڑھتے ہوئے شبہات سے دُکھ پہنچا ہے
یا انھیں لغزشِ معصوم، گراں گزری ہے
یا غلط فہمیِ حالات سے دُکھ پہنچا ہے
میرے اشکوں کو شکایت نہیں کوئی تم سے
مجھ کو اپنی ہی کسی بات سے دُکھ پہنچا ہے
میری جرأت پہ، شکیبؔ، آج خرد حاوی ہے
آج ناکامیِ حالات سے دُکھ پہنچا ہے
شکیب جلالی