اوجھل ہوا نظروں سے ضیا خانہِ مہتاب
اب شمع بکف پھرتا ہے دیوانہِ مہتاب
بخشی ہیں تحیّر کی نگاہوں کو پناہیں
دائم رہے آباد صنم خانہِ مہتاب
ڈھونڈے نہ ملی جاے سکُوں قریہِ شب میں
کاندھے پہ اٹھائے پھرے کاشانہِ مہتاب
پھِر اُڑنے لگے گیسوے غم دوشِ فضا پر
پھر کوئی چھلکتا ہوا پیمانہِ مہتاب
شمعیں نہ بھڑک اٹھیں شبستانِ جنوں کی
ہم کہتے ہوئے ڈرتے ہیں افسانہِ مہتاب
تم سے تو کوئی فیض نہیں عرش نشینو
ہم خاک بسر، لائے ہیں نذرانہِ مہتاب
شکیب جلالی