رقص و نغمات سے بغاوت ہے
اب جمالات سے بغاوت ہے
غم کا ماحول جو بدل نہ سکیں
ایسے نغمات سے بغاوت ہے
میرے احساس کے اجالوں کو
چاندنی رات سے بغاوت ہے
حسن سے انتقام لینا ہے
دل کی ہر بات سے بغاوت ہے
جن سے اعصاب مُضمحل ہو جائیں
ان غزلیات سے بغاوت ہے
قلب کی واردات جن میں نہ ہو
ان حکایات سے بغاوت ہے
جو کہ فکر و عمل سے عاری ہوں
ان روایات سے بغاوت ہے
وقت کے ساتھ جو بدل نہ سکیں
ایسے حالات سے بغاوت ہے
جو نہ سمجھیں نئے تقاضوں کو
ان خیالات سے بغاوت ہے
غم کی خودداریاں، شکیبؔ، نہ پوچھ
اب شکایات سے بغاوت ہے
شکیب جلالی