اب تو اپنے در و بام بھی‘ جانتے ہیں پرایا مجھے

تونے کیا کیا نہ اے زندگی!دشت و دَر میں پھرایا مجھے
اب تو اپنے در و بام بھی‘ جانتے ہیں پرایا مجھے
اور بھی کچھ بھڑکنے لگا‘ میرے سینے کا آتش کدہ
راس تجھ بِن نہ آیا کبھی‘ سبز پیڑوں کا سایہ مجھے
ان نئی کونپلوں سے مرا‘ کیا کوئی بھی تعلق نہ تھا
شاخ سے توڑ کر اے صبا !خاک میں کیوں ملایا مجھے
درد کا دیپ جلتا رہا‘ دل کا سونا پگھلتا رہا
ایک ڈوبے ہوئے چاند نے‘ رات بھرخوں رلایامجھے
اب مرے راستے میں کہیں ‘ خوفِ صحرا بھی حائل نہیں
خشک پتّے نے آوارگی کا قرینہ سکھایا مجھے
مدّتوں رُوئے گُل کی جھلک کو ترستا رہا میں ‘ شکیبؔ
اب جو آئی بہار‘ اس نے صحنِ چمن میں نہ پایا مجھے
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s