دوستی کا فریب ہی کھائیں
آؤ کاغذ کی ناؤ تیرائیں
ہم اگر رَہ رَوی کا عزم کریں
منزلیں کِھنچ کے خود چلی آئیں
ہم کو آمادہِ سفر نہ کرو
راستے پُرخطر نہ ہو جائیں
ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے
آؤ کچھ دیر کو ٹھہر جائیں
مُطربہ! ایسا گیت چھیڑ کہ ہم
زندگی کے قریب ہو جائیں
ان بہاروں کی آبرو رکھ لو
مسکراؤ کہ پھول کھِل جائیں
گیسوئے زیست کے یہ اُلجھاؤ
آؤ مِل کر شکیبؔ، سلجھائیں
شکیب جلالی