پیارے جدا ہوئے ہیں، چھوٹا ہے گھر ہمارا
کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا
بس گاہ گاہ لے آ، خاکِ وطن کی خوشبو
اے بادِ صبح گاہی، یہ کام کر ہمارا
ہیں بزمِ عاشقاں میں، بے وقعتی کے موجب
سینے میں دم ہمارے، شانوں پہ سر ہمارا
ہم اور ہی جہاں کے، یعنی کہ لامکاں کے
ہے صرف اتفاقاً ، آنا اِدھر ہمارا
اتمامِ دل خراشی، اسلوبِ سینہ چاکی
اظہارِ کرب ناکی، بس یہ ہنر ہمارا
اک سعئِ بے مسافت، بے رنگ و بے لطافت
مت پوچھیئے کہ کیسے، گزرا سفر ہمارا
پہلے سے اور ابتر، گویا جنوں سراسر
بس یہ بتاوٗ پوچھے، کوئی اگر ہمارا
دم سادھنے سے پہلے، چپ سادھ لی گئی ہے
اظہار ہو چکا ہے، امکان بھر ہمارا
ایسے نہ آس توڑو، سب کچھ خدا پہ چھوڑو
اس مشورے سے پہلے، سمجھو تو ڈر ہمارا
عرفان ستار