جو ہو خود ایک تماشا وہ بھلا کیا سمجھے
میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے
مجھ میں آباد ہے اک شہر، ترے حُسن کا شہر
وہ جو باہر سے مجھے دیکھے وہ تنہا سمجھے
مجھ سے ممکن یہ نہیں ہے کہ میں کھل کر کہہ دوں
اس کے بس میں یہ نہیں ہے کہ اشارہ سمجھے
آہ ایسی، کہ سنے کوئی تو سمجھے نغمہ
اشک ایسا، کوئی دیکھے تو ستارا سمجھے
ٹھیک ہے دشت بھی ہوں، باغ بھی ہوں، دریا بھی
جس کو جیسا نظر آؤں مجھے ویسا سمجھے
لفظ پردہ ہیں، اسے کاش بتا دے کوئی
اس کو سمجھائے کہ سمجھے، مرا لہجہ سمجھے
بس یہی ہے جو میّسر ہے مرے قرب کے ساتھ
جو مرے دل میں بسے وہ اِسے دنیا سمجھے
سانحہ کرکے سنایا تھا اُسے رنجِ فراق
سُن کے بس اتنا کہا اُس نے کہ ’’اچھا۔ ۔ ۔ سمجھے‘‘
دل کسی حرفِ ملائم سے سنبھل بھی جاتا
میرے سینے میں اچھلتا ہے بگولا، سمجھے؟
وصل سے اِن کے نمو پاتی ہے اک کیفیۤت
کوئی الفاظ و معانی کا یہ رشتہ سمجھے
اتنا دشوار ہوں کیا میں جو کسی پر نہ کھلوں؟
کوئی تو ہو مجھے میرے علاوہ سمجھے
ابھی سمجھو تو میں کیا خوب سخن تم سے کروں
بعد میرے مجھے سمجھے بھی تو پھر کیا سمجھے
تُو سمجھتا ہے اُسے، شکر بجا لا عرفان
وہ جسے دیر نہ کعبہ، نہ کلیسا سمجھے
عرفان ستار