بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے
آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے
آشوبِ آگہی میں گماں کی بساط کیا
وہ آندھیاں چلیں کہ یقیں تک بکھر گئے
میں خود ہی بد نُمو تھا کہ مٹی میں کھوٹ تھا
کھِل ہی نہیں سکا، مرے موسم گزر گئے
اب آئے جب میں حال سے بے حال ہو چکا
سب چاک میرے سِل گئے، سب زخم بھر گئے
جشنِ بہارِ نو کا ہُوا اہتمام جب
ہم ایسے چند لوگ بہ مژگانِ تر گئے
دل سا مکان چھوڑ کے دنیا کی سمت ہم
اچھا تو تھا یہی کہ نہ جاتے، مگر گئے
تنہا ہی کر گئی یہ بدلتی ہوئی سرشت
سب دل میں رہنے والے ہی دل سے اتر گئے
اب کچھ نہیں کریں گے خلافِ مزاج ہم
اکثر یہ خود سے وعدہ کیا، پھر مُکر گئے
اچھے دنوں کے میرے رفیقانِخوش دلی
اس بے دلی کے دور میں جانے کدھر گئے
اس عہد_ بد لحاظ میں ہم سے گداز قلب
زندہ ہی رہ گئے تو بڑا کام کر گئے
عرفان اب سناؤ گے جا کر کسے غزل
وہ صاحبانِ ذوق، وہ اہلِ نظر گئے
عرفان ستار