آغاز میں نہ کوئی سہارا ہے بعد میں
ہم دِل زَدوں نے دل ہی کو مارا ہے بعد میں
ہر دَور نے ہمیَں نظر انداز بھی کِیا
ہر دَور نے ہمیِں کو پُکارا ہے بعد میں
طوفاں سے موج موج نہ کیا کیا لڑے ہیں ہم
ہر بار سوچتے تھے کنارا ہے بعد میں
اے انجمن مزاج تری خلوتوں کے فیض
تنہائیوں نے ہم کو جو مارا ہے بعد میں
احسانِ غیر لے کے یہ ہم جانتے ہیں دوست
کس طرح وقت ہم نے گذارا ہے بعد میں
دیکھا ہے اُس نے بھر کے نظر جب کبھی ہمیں
صدقہ ہر اَک نظر کا اُتارا ہے بعد میں
وہ لاکھ ملتفت ہَوں پَر اَے دِل یہ سوچ لے
انجامِ التفات گوارا ہے بعد میں ؟
اِس عشقِ سادہ لوح پَہ ضامنؔ خدا کی مار
پہلے اُنھیں خدا کو پُکارا ہے بعد میں
ضامن جعفری