ہم جنوں والوں سے ہرگز دو بدو مت کیجٔو
ہر گھڑی ہوش و خرَد کی گفتگو مت کیجٔو
خود شناسائے جنوں ہے وہ، یہ بس رکھیو خیال
جا کے چپکا بیٹھ رہیو ہاؤ ہُو مت کیجٔو
یہ دہانِ زخم بہلاتے ہیں غم کو مثلِ گُل
دل کی آرائش ہیں اِن کو کُو بہ کُو مت کیجٔو
انتظارِ دید میں تکتے رہیں گے در ترا
کشتۂ الفت ہیں ، ہم کو قبلہ رُو مت کیجٔو
بجلیاں ہیں جہل کی نخلِ خِرَد کی تاک میں
ضامنؔ! اِس جا خواہشِ ذوقِ نمو مت کیجٔو
ضامن جعفری