ہر سانس میں رچ بس جاتی ہے یہ آگ قیامت ہوتی ہے

آزاد ہو جو ہر خواہش سے ایسی بھی محبت ہوتی ہے
ہر سانس میں رچ بس جاتی ہے یہ آگ قیامت ہوتی ہے
اس درجہ خلوص و الفت پر دنیا تو یقینا چَونکے گی
ہر ایک پہ شک ہر اِک پہ شبہ، یہ ایک روایت ہوتی ہے
جب اُن سے لڑائی ہوتی ہے یہ سوچ کے میں ہنس پڑتا ہوں
ویسے تو علامت اچھی ہے، اپنوں سے شکایت ہوتی ہے
امید پہ دنیا قائم ہے یہ ٹوٹتی بنتی رہتی ہے
ہر روز کا مرنا جینا ہے ہر روز قیامت ہوتی ہے
بہتر ہے یہی ہم تم دونوں قصہ کو ادھورا رہنے دیں
خود لوگ مکمل کر لیں گے لوگوں کو تو عادت ہوتی ہے
وہ ساعت جانے کون سی تھی جب ہم نے روگ یہ پالا تھا
اِس کارِجنوں سے اب دیکھیں کب ہم کو فرصت ہوتی ہے
جب ربطِ مسلسل تھا اُن سے اُس وقت اور اب میں فرق یہ ہے
پہلے تو ذرا سی قربت تھی اب روز قیامت ہوتی ہے
مجبور ہوں اپنی فطرت سے، ضامنؔ! میں سراپا اُلفت ہوں
میں عشقِ مجسّم کیا جانوں کیا چیز یہ نفرت ہوتی ہے
ضامن جعفری

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s