ہر طرح یاد آ رہا ہے مجھے
ہر بہانے ستا رہا ہے مجھے
حالِ دل روز پوچھنے والو
کوئی اندر سے کھا رہا ہے مجھے
اُس سے ملنے کو جا رہا ہوں میں
طُور پر کیا بُلا رہا ہے مجھے
ڈُوب کر رہ گئی مری آواز
جو ہے اپنی سُنا رہا ہے مجھے
ظلم اتنا نہ رکھ روا خود پر
جانے کب سے بُھلا رہا ہے مجھے
جان میں جان آ گئی ضامنؔ
جب سُنا وہ بُلا رہا ہے مجھے
ضامن جعفری