پُوچھتا پھرتا ہے گھر گھر کوئی طاقت والا
کیا یہاں رہتا ہے حق گوئی سے رغبت والا
قریہِ ذات میں محبوس مکینوں کے لئے
کون سا وقت اب آئے گا قیامت والا
کیسی بستی ہے کہ سب زخم لئے پھِرتے ہیں
کوئی دیکھا ہی نہیں اَشکِ ندامت والا
مصلحت زندہ ہے یا زندہ ہیں اندیشہ و خوف
ڈھونڈتے پھِریے خلوص اَور محبّت والا
دل لگانا بہت آسان ہے لیکن ضامنؔ
سوچ لیجے گا ذرا کام ہے فرصت والا
ضامن جعفری