مجبور ہُوں دل کے ہاتھوں سے پھر کوئے بتاں کو جاتا ہُوں
کیا ہنستے ہو اے دنیا والو، دیوانے کو بہلاتا ہُوں
ہُوں نَو سَفَرِ راہِ الفت، تا راس آجائے خوئے بتاں
اے محوِ تماشا دیکھ ذرا، کس شوق سے ٹھوکر کھاتا ہُوں
محرومیِ منزل قسمت ہے، اتمامِ سَفَر ہو گا نہ کبھی
دو چار قدم پر منزل ہے اور میں ہُوں کہ بیٹھا جاتا ہُوں
اخلاص و محبّت سے عاری اِس حرص و ہَوس کی دنیا میں
اِخلاص و محبّت جُرم مرے، میں خوارِ جہاں کہلاتا ہُوں
کچھ گرمیِ محشر تیز ہُوئی، کچھ داوَرِ محشر چونک اُٹھا
کچھ وہ بھی پریشاں ہیں ضامنؔ، میں داغِ جگر دِکھلاتا ہُوں
ضامن جعفری