کون سا ہے زخم جو کاری نہیں تازہ نہیں
کیا تمہیں اپنی نظر کا خود بھی اندازہ نہیں
منتشر ہونے کو ہے چاہو تو اب بھی روک لو
میرے بس میں اب مری ہستی کا شیرازہ نہیں
ہیچ ہیں عشق و جنون و جذب سب پیشِ فنا
منزلِ آخر پَہ کوئی خوفِ خمیازہ نہیں
چشمِ گریاں سے ٹپکتی نطقِ خاموشی کی گونج
محض آوازِ شکستِ دِل ہے آوازہ نہیں
جب محبت ہو گئی ضامنؔ! تب اندازہ ہُوا
یہ وہ زنداں ہے کہ جس میں کوئی دروازہ نہیں
ضامن جعفری