شعورِ ذات کی منزل بُلارہی ہے مُجھے
کوئی صدا مرے اندر سے آرہی ہے مُجھے
خیالِ دہر سے پیچھا چُھڑا رہا ہُوں میں
ہَوائے دہر وہیں لے کے جا رہی ہے مُجھے
میں اپنے آپ سے بیٹھا ہُوا ہُوں رُوٹھا ہُوا
گھڑی گھڑی یہ خرد کیوں منا رہی ہے مُجھے
تو کیا یہ طے ہے کہ میں آپ اپنے بس میں نہیں
کسی کی یاد یہ کیوں آئے جارہی ہے مُجھے
میں پار کر ہی نہ لُوں سَرحَدِ جنوں کو کہیں
خِرَد کو خَوف ہے سو وَرغَلا رہی ہے مُجھے
تُلا ہُوا ہُوں میں خُود کو شکست دینے پَر
مِری اَنائے مُسلسل سَتا رہی ہے مجھے
حدودِ سَرحَدِ اِدراک سے پَرے ضامنؔ
کوئی چُھپائی گئی حِس بُلا رہی ہے مُجھے
ضامن جعفری