ہر ایک غم کو جو ہنس کر گلے لگایا ہے
ہر اِک کے ساتھ ترے نام کا حوالا ہے
فصیلِ قلب و نظر سے پلٹ تو آیا ہوں
ترے حصار میں لیکن شگاف آیا ہے
حسابِ سود و زیاں میں اُلجھ کے کیا دیکھیں
ہمیں یقین ہے، کھویا نہیں ہے، پایا ہے
کوئی تو ہے یہاں میرا بھی رازداں ضامنؔ
کوئی تو ہے جسے میں نے یہ سب سنایا ہے
ضامن جعفری