ہر انجمن میں مرا ذکر آ رہا ہو گا
کسی کو ترکِ تعلّق سَتا رہا ہو گا
دل و دماغ میں اِک کشمکش تو ہو گی ابھی
لبوں پہ نام مرا ڈگمگا رہا ہو گا
زہے نصیب وہ پھر آ رہا ہے بستی میں
گئے زمانوں کو بھی ساتھ لا رہا ہو گا
خوشی میں بھی مجھے رہتی ہے فکر دامن گیر
کہ وقت تِیر کماں میں لگا رہا ہو گا
لحد میں ہوں گے حقوقِ بشر مرے لب پر
فرشتہ حکمِ اِلٰہی سُنا رہا ہو گا
بنایا کرتے تھے ہنس ہنس کے سب کو دیوانہ
زمانہ اب وہ اُنہیں یاد کیا رہا ہو گا
ضامن جعفری