گردن کا طوق پاؤں کی زنجیر کھینچتے
پھر نقشِ خوش خرامیِ تقدیر کھینچتے
دستِ دعا کو تھام لیا تم نے ورنہ ہم
حرفِ دعا کو تا دمِ تاثیر کھینچتے
سب کو یہ زعم تھا کہ تقدّس مآب ہیں
ہم کیوں حصارِ آیہِ تطہیر کھینچتے
اہلِ جنوں نے معرکے وہ سر کئے جہاں
اہلِ خِرَد کا کام تھا شمشیر کھینچتے
بہتر یہ ہوتا آپ کماں کھینچنے سے قبل
پہلی عنایتوں کے تو کچھ تِیر کھینچتے
کیسا نظامِ عدل میاں ! سُن لِیا کرو!
ہم در بہ در گئے ہیں یہ زنجیر کھینچتے
لے لے کے اُن کا نام مجھے دیکھتے ہیں لوگ
ایسے میں کاش وہ مری تصویر کھینچتے
خود سے نکل کے دیکھتے گر عکسِ حُسنِ یار
آئینے نقشِ حیرتِ تصویر کھینچتے
تِنکے نکالنے میں رہے چشمِ غیر سے
ضامنؔ! وہ اپنی آنکھ کا شہتیر کھینچتے
ضامن جعفری