پلَیٹَو نِک لَو

۔۔ پہلا رُخ ۔۔
میں نے چاہا تھا تجھےعام رَوِش سے ہٹ کر
خواہشِ لمس سے آزاد تھی چاہت میری
روح کی ،روح سے
پاکیزہ محبت کی طرح
اِک پجاری کی، کسی بت سے
عقیدت کی طرح
جس طرح سے
کسی نغمے پہ سماعت مچلے
دیکھ کر تاج محل
جیسے بصارت مچلے
ذہن میں جیسے کوئی ایسا تصور اُبھرے
حُسنِ صورت سے پرےاحترام اور محبت کو لئے
آرزو جس میں نہ ہو کوئی نہ خواہش کا وجود
جیسے ہر اَنگ میں رس گھول دے لحنِ داؤد
جانے دنیا میں کہیں ایسی لگن ہے کہ نہیں
کبھی سوچا ہی نہیں تیرا بدن ہے کہ نہیں
۔۔ دوسرا رُخ ۔۔
اب جو ٹھکرایا ہے تو نے
تو خیال آیا ہے
تیری دنیا میں
بھلا کام ہی کیا تھا میرا
میں بھٹکتا ہُوا ،کس سمت نکل آیا ہوں
ایک ناکارہ سی سوغات،اُٹھا لایا ہوں
عشق میرا
ترے پندار سے بھی نازک تر
ایک پودا تھا
جسے چھُو لو، تو مر جاتا ہے
اور اُدھر
رسم و روایت کی روا دار ہے، تُو
روح کو چھوڑ کے
پیکر کی پرستار ہے، تُو
تیرا اصرار ہے یوں تجھ کو نہ چاہا جائے
کرلوں تاراج میں خود اپنی ہی دنیائے خیال
تا کہ رسم و رہِ دنیا کو نباہا جائے
میری بے لَوث محبت کا تقاضا بھی یہ تھا
اپنی خوشیوں کو
تری خوشیوں پہ وارا جائے
جب میسر ہی نہ ہوترکِ تعلق کے سوا
کوئی صورت، کوئی راہ
عشق کو
صرف سِپَر ڈال کے ملتی ہے پناہ
سو، یہی میں نے کیا
زندگی بھرتری اِس ضد کو نباہوں گا میں
تجھ کو بھی علم نہ ہویوں تجھے چاہوں گا میں
اِک اَنوکھی سی مسرّت ہےیہ سمجھوتہ بھی
میں بھی خاموش ہوں اِس جھوٹ پہخوش ہے تو بھی
ضامن جعفری

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s