غیر تو غیر خود اپنا نہیں رہنے دیتا
وہ کسی کو بھی کہیِں کا نہیں رہنے دیتا
اُس کی آواز ہے دشمن مرے سنّاٹوں کی
اُس کا چہرہ مجھے تنہا نہیں رہنے دیتا
وہ مجھے بھول چکا ہے تو یہ سب کچھ کیا ہے
کیوں کوئی بزم میں مجھ سا نہیں رہنے دیتا
بھرنے لگتے ہیں تو یادوں پہ اثر پڑتا ہے
دل کے زخموں کو میں اچھا نہیں رہنے دیتا
وہ کہیں راہ میں مل جائے تو پوچھوں ضامنؔ
کیوں کبھی مجھ کو اکیلا نہیں رہنے دیتا
ضامن جعفری