میں رازِ کُن ہُوں مجھ کو فاش ہو جانا نہیں آتا
وہ تنہا تھا تَو کتنا تھا یہ سمجھانا نہیں آتا
خبر شاید نہیں ہے اُس کے حسنِ بے محابا کو
خلوصِ عشق کو مایوس ہو جانا نہیں آتا
جنوں کی اور میری اِن دِنوں اچھّی گذرتی ہے
یہاں بس ہم ہی دو ہیں کوئی انجانا نہیں آتا
میں لڑتا پھِر رہا ہُوں آئینہ خانوں سے جا جا کر
سمجھ میں آئینوں کا یوں بدل جانا نہیں آتا
یونہی تشنہ رہے گا میرا ذوقِ نا رسائی کیا
مرے جلوہ نُما کیا تجھ کو ترسانا نہیں آتا
حقیقت وہ ہے جو آنکھوں سے بِن برسے نہیں رہتی
ٹپکنے کو کبھی دامن پہ افسانا نہیں آتا
وہ اظہارِ محبت ہی نہیں سمجھا تَو میرا دِل
معافی چاہتا ہے اِس کو دوہرانا نہیں آتا
سفر میں بستیوں کے اِک زمانہ ہو گیا ضامنؔ
سکوں حیراں ہے کیا رستے میں ویرانا نہیں آتا
ضامن جعفری