طاقچوں کی کالَک ہے کھڑکیوں کے جالے ہیں
وقت کی امانت ہیں قیمَتی حوالے ہیں
زَخم وا نہیں کرتے تا نہ پُوچھ لے کوئی
دل کہاں گیا صاحب یہ تَو صِرف چھالے ہیں
پھول ہَوں کہ پتّھر ہَوں اب تو بس یہ عالَم ہے
جو بھی آئے آنے دو سب ہی دیکھے بھالے ہیں
کہہ رہے ہیں دیوانے دَور آئے گا اچّھا
سُن رہے ہیں ہم جب سے ہوش کچھ سنبھالے ہیں
زَخمِ دل کے مَرہَم کا نِرخ بڑھ گیا صاحب
یہ خَبَر ہے گردش میں آپ آنے والے ہیں
گردشِ زمانہ کیوں فکرمند ہے ضامنؔ
اس نے سُن لِیا ہو گا ہَم نے پَر نِکالے ہیں
ضامن جعفری