یہ حسن و عشق کا یک طرفہ سلسلہ کیا ہے
نہ کوئی داد نہ فریاد ماجرا کیا ہے
دل و نظر سے ہر اِک اختیار خود لے کر
وہ مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ فیصلہ کیا ہے
صدا پلٹ کے جو آئی ہے اِس میں حیرت کیا
شکستِ دل کے سِوا سنگ کی صدا کیا ہے
یہ سرزنش یہ تغافل یہ سب سر آنکھوں پر
مگر حضور! مرے درد کی دوا کیا ہے
تری نظر کے رویّوں کے نام ہیں ورنہ
حیات و موت کا آپس میں واسطہ کیا ہے
سنا ہے ہوتی تو ہے دل کو دل سے راہ ضرور
سمجھ تو وہ بھی رہا ہے مجھے ہُوا کیا ہے
وہ جانتا ہے تقاضائے مصلحت ضامنؔ
اُسے خبر ہے کہ اچھا ہے کیا برا کیا ہے
ضامن جعفری