نَظَر نے جھُکنا ابھی تَو سیکھا ہے جب سے یہ کچھ بڑی ہُوئی ہے

اَزَل سے حُسن اَور چَشمِ حیَراں کو اپنی اپنی پڑی ہُوئی ہے
نَظَر نے جھُکنا ابھی تَو سیکھا ہے جب سے یہ کچھ بڑی ہُوئی ہے
ضمیرِ انساں نے حَدِّ امکاں کی رفعتوں پر پُہنچ کے دیکھا
جِلَو میں اس کے کوئی نہ کوئی اِک آرزو بھی کھَڑی ہُوئی ہے
بَتائے کوزہ گروں کو کوئی کہ زینتِ چاک اَور کیا ہے
وہ مُشتِ خاک اُن کے راستوں میں جو ہر قَدَم پر پَڑی ہُوئی ہے
یہ رُوح و تَن کا مُناقَشہ جو اَزَل سے ہے تا اَبَد رہے گا
نہ رُوح بھاگی نہ تَن دَبا ہے نَظَر نَظَر سے لَڑی ہُوئی ہے
یہ احسن الخلق یا اِلٰہی کہیں نہ ہو سعیِ رایگاں ہی
کہ اس کی فطرت جہاں تھی پہلے وَہیں ابھی تک گَڑی ہُوئی ہے
ہُوئی نہ باغِ عَدَم میں سَرزَد خَطا کَبھی کوئی ہَم سے ضامنؔ
ہُوئی بھی ہو تَو یہ قیدِ ہَستی سَزا زِیادَہ کَڑی ہُوئی ہے
ضامن جعفری

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s