قیودِ رسم و رواج سے کب ملی کسی کو پناہ ساقی
نظامِ ہستی رہے گا یوں ہی نکال لے کوئی راہ ساقی
ملے گی اُن کو جو ہیں تہی ظرف اگر یہی رسمِ میکَدہ ہے
تَو تیری محفل تجھے مبارک نہ ہو گا اپنا نباہ ساقی
کہاں پہ ناز و ادا ہیں اچّھے کہاں پہ ہے احتیاط بہتَر
ہمِیں سے آدابِ بزم سیکھے ہمِیں سے پرہیز واہ ساقی
یہ کون پیرِ مغاں ہے یارو؟ عجیب حالت ہے میکَدے کی
نگوں ہیں ساغر، خموش مِینا، اُداس رند و تباہ ساقی
نہ بدگماں ہو ہم اہلِ دِل سے کہ اِس تِری بزمِ حُسن میں بھی
بہت سے ہوں گے ہمارے ضامنؔ بہت سے ہوں گے گواہ ساقی
ضامن جعفری