سارے دَر کُھلتے گئے، ایک دَرِ عِشق کے بَعد
میں وہ میں ہی نہ رَہا پِھر اَثَرِ عِشق کے بَعد
ایک قَطرہ ہُوا کَرتا تھا، سَمَندَر ہُوں میں
سَفَرِ عِشق سے پہلے سَفَرِ عِشق کے بَعد
قَدر کرنا ہو تَو کر لو کہ یہی آخری ہے
کوئی آئے گا نہ اِس دَر بَدَرِ عِشق کے بَعد
حِدَّتِ رُوح نے پایا نہ کبھی سایہ فِگَن
کوئی پیڑ اِتنا گَھنا پِھر شَجَرِ عِشق کے بَعد
تُم یہ سَمجھوگے اَبھی نُقطَہِ آغاز پہ ہُوں
مُجھ کو دیکھو کبھی آ کر سَفَرِ عِشق کے بَعد
ہَر قَدَم لَگتا تھا ضامنؔ یہی مَنزِل ہے مِری
رہگُزَر ڈُھونڈتا کیا رہگُزَرِ عِشق کے بَعد
ضامن جعفری