ہمیشہ سوچتا ہُوں اب کَہُوں گا
میں دل کی بات جانے کب کَہُوں گا
جو سب کچھ ہو کے بھی تم کہہ نہ پائے
وہ میں بے عہدہ و منصب کَہُوں گا
تمہارے دن ہیں تم جو چاہو کہہ لو
مرا وقت آئے گا میں تب کَہُوں گا
مُصِر ہیں وہ کہ جو دل میں ہے کہہ دُوں
قیامت ہو گی لیکن جب کَہُوں گا
یہ دعوے کفر کے اِک دوسرے پر
بھَلا میں اور اِسے مذہب کَہُوں گا
کوئی سُننے پہ راضی ہو تَو ضامنؔ
اَلِف سے لے کے یے تک سب کَہُوں گا
ہوچکا جو وہ دوبارا نہیں ہونے دوں گا
میں سرِ راہ تماشا نہیں ہونے دوں گا
گوشہِ چشم میں رہ پائے تو بیشک رہ لے
قطرہِ اشک کو دریا نہیں ہونے دوں گا
یہ کوئی بات ہے جب چاہے نکالے مجھ کو
بزم کو عالمِ بالا نہیں ہونے دوں گا
دل کو سمجھاؤں گا جیسے بھی ہو ممکن لیکن
اب میں اظہارِ تمنّا نہیں ہونے دوں گا
اے مرے ظرف و اَنا اِتنے پریشاں کیوں ہو
کہہ چکا ہُوں تمہیں رُسوا نہیں ہونے دوں گا
مر بھی جائے گی اگر دنیا تو خود کو ضامنؔ
جیسی یہ خود ہے میں ایسا نہیں ہونے دوں گا
ضامن جعفری