گو دِل شکستگی کا اثر تَو نہیں گیا
میرا کمال یہ ہے میں مَر تَو نہیں گیا
تا حَشر دیکھ بھال کی ایک ایک زَخم کی
دَھڑکا لگا رَہا کہیِں بَھر تَو نہیں گیا
وحشَت کی لاج رَکّھی ہے میں نے تمام عُمر
کیا کیا نَہ خاک اُڑائی پَہ گھر تَو نہیں گیا
رَستے میں کوئی چاک گریباں نہیں مِلا
لینا خَبَر کہیِں وہ سُدَھر تَو نہیں گیا
حُسنِ بُتاں ! یہ واقفِ خُوئے بُتاں بھی ہے
دِل پُوچھتا رَہا میں اُدَھر تَو نہیں گیا
آواز کس طرح کی یہ سینے سے آئی ہے
ضامنؔ! دِلِ شکستہ بِکھر تَو نہیں گیا
ضامن جعفری