دُوئی اُس سے ذرا سی بھی نہیں ہے
مگر یہ بات کہنے کی نہیں ہے
بہت دیکھا ہے پھولوں کی ہنسی کو
بہت اچّھی ہے پر ویسی نہیں ہے
دیا ہے درد کو پیراہنِ لفظ
غزل بہرِ غزل لکّھی نہیں ہے
سکوں کیوں مل رہا ہے تم سے مل کر
علامت یہ کوئی اچّھی نہیں ہے
غلط ہے چارہ گر تشخیص تیری
محبّت ہو گئی ہے کی نہیں ہے
کرشمہ یہ بھی تیرے حسن کا ہے
جنون و ہوش میں بنتی نہیں ہے
غمِ دل ایسا راس آیا ہے ضامنؔ
کہ زخموں کی ہنسی رُکتی نہیں ہے
ضامن جعفری