ذِکر ہے میرا حدیثِ دِگَرَاں ہو جیسے
مِل بھی لیتے ہیں مگر بارِ گراں ہو جیسے
راکھ کر کے بھی مرے دل کو وہ یوں فکر میں ہیں
کہیں اُٹھتا ہُوا ہلکا سا دُھواں ہو جیسے
آہ و فریاد نہ منّت نہ سماجت کا اثر
اِک تغافل ہی فقط حسنِ بیاں ہو جیسے
شب کے سنّاٹے میں اُس چہرہ و آواز کی یاد
"چاندنی رات میں دریا کا سماں ہو جیسے”
اُن کو جینا ہی گوارا نہیں میرا ضامنؔ
سانس بھی لُوں تو شکایت ہے فغاں ہو جیسے
ضامن جعفری