رات بھر کربِ مسلسل مری تنہائی کا
’’مُلتجی تھا تری تصویر سے گویائی کا‘‘
کسی شب آئیے تصویر سے باہر صاحب
آپ پر قرض بہت ہے مری بینائی کا
ہم نے مَرمَر کے جیے جانے کا فن سیکھ لیا
ہم سے اُٹھتا نہیں احسان مسیحائی کا
کون آیا ہے نیا شہر میں معلوم کرو
سبھی ارمان لئے پھِرتے ہیں رُسوائی کا
کسی خوش رنگ سے نسبت کا اَثَر ہے شاید
شوق زخموں میں دَر آیا ہے خود آرائی کا
خوب احسان کِیا عشقِ جنوں پیشہ نے
نام ہر سنگ پہ لکّھا ترے سَودائی کا
اَور تو کارگہِ حُسن میں کیا ہے ضامنؔ
اِک تماشا ہے تمنّا و تمنّائی کا
ضامن جعفری