ظاہر میں چونکہ حشر بہ داماں نہیں ہیں ہم
موجیں سمجھ رہی ہیں کہ طوفاں نہیں ہیں ہم
ہمّت بھی ہے نظر بھی ہے قصدِ سفر بھی ہے
ایسے بھی کوئی بے سر و ساماں نہیں ہیں ہم
موجیں تَو مطمئن ہیں ہمیں جانتی ہیں وہ
طوفاں کو فکر ہے کہ پریشاں نہیں ہیں ہم
شعلے لَرَز رہے ہیں تَو اُس کا سبب یہ ہے
آثار کہہ رہے ہیں کہ آساں نہیں ہیں ہم
آنکھیں ہیں اشک اشک جگر ہے لہو لہو
پھر بھی وہ کہہ رہے ہیں غزلخواں نہیں ہیں ہم
ضامنؔ ہماری راہ میں کانٹے بِچھا کے وہ
حیران رہ گئے ہیں کہ حیراں نہیں ہیں ہم
ضامن جعفری