سفر یادوں کا اچھّا کَٹ رہا ہے
مری تنہائی میرا قافلہ ہے
بظاہر کھو گیا ہے قربتوں میں
ہمارے درمیاں اِک فاصلہ ہے
زمانے سے توقّع رکھنے والے
زمانہ بس تماشا دیکھتا ہے
نظر بیشک تمہاری تیز ہو گی
مگر آنکھوں پہ جو پردہ پڑا ہے
درِ دل کھول کر دیکھو تَو ضامنؔ!
لگا جیسے کوئی کھٹکا ہُوا ہے
ضامن جعفری